Read this Article about BOL TV
بول ٹی وی اور صحافتی تنظیموں کے خواجہ سراء
وہی ہوا جس کا ڈر تھا، مسلم لیگ ن کی حکومت نے حرام خوران قبیلے سے تعلق رکھنے والے میڈیا مالکان کی سازش کی سرپرستی کرتے ہوئے بول ٹی وی چینل کی ٹیسٹ نشریات بھی رکوا دیں، وہ پیمرا جس کا ہر ممبر کسی نے کسی میڈیا مالک کی دلالی کرتا ہے، وہ بھی فوری طور پر حرکت میں آیا اور نشریات بند کروانے کے نوٹیفکیشن پر عملدرآمد کر ڈالا، ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ اب پاکستانی صحافتی کی تنظیمیں بھی ایسے صحافی لیڈروں کے قبضے میں ہیں جو صحافی کی تعریف پر کم اور چورن بیچنے والوں اور دلالی کرنے والوں کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔
بول ٹی وی کا بند ہونا کسی ایک صحافی، کسی ایک شہری، کسی ایک پروفیشنل کا نقصان نہیں بلکہ پوری قوم، پاکستان کے تمام صحافیوں کا نقصان ہے، ایسا نقصان جس کا خمیازہ پوری قوم اور صحافی برداری کو کئی برسوں تک برداشت کرنا پڑے گا، بالخصوص صحافیوں کے ساتھ میڈیا مالکان وہ سلوک کریں گے کہ لوگ صحافی بننے کی بجائے ریلوے سٹیشن پر قلی بھرتی ہونے کو ترجیح دینگے۔
اس ملک میں جتنے بھی میڈیا کے ادارے ہونگے ، عوام کا اتنا ہی فائدہ ہوگا کیونکہ ظلم برداشت کرتے کرتے جب عوام تھک جاتے ہیں تو دنیا کے ہر ملک میں عوام کی آخری امید میڈیا ہوتا ہے، اگر ایک ٹی وی چینل عوام کے مسئلہ پر آواز نہیں اٹھاتا تو دوسرا اٹھائے گا، دوسرا نہیں تو تیسرا، تیسرا نہیں تو چوتھا یعنی کوئی نہ کوئی میڈیا ضرور نقارہ خلق خدا بنے گا، اسی لئے میڈیا کے زیادہ سے زیادہ ادارے ہونا لازمی تھے مگر اب ایسا نہیں ہوگا۔
اب شاید ہی کوئی میڈیا میں انویسٹمنٹ کرے گا کیونکہ اسے ڈر ہو گا کہ ہلکے کتے کی طرح بول ٹی وی کے پیچھے پڑنے والے میڈیا مالکان اور ان کے دلال اینکرگر میرے پیچھے پڑ گئے تو اچھے یا برے طریقے سے کمائی ہوئی عزت خاک میں مل جائے گی۔ اب شاید ہی کوئی صحافی اپنی مرضی سے خبر دے سکے گا، پہلے ہی اگر کوئی تحقیقاتی خبر دیتا ہے تو میڈیا مالکان اشتہارات کے لالچ میں اس رپورٹر کی خبر رکوا دیتے ہیں، اب میڈیا مالک اپنا اپنا ایجنڈا چلوائیں گے ، رپورٹر پی آر او کا کردار ادا کرے گا اور اس کے بدلے معاوضہ بھی مزدور کی کمائی سے کم ہوگا ۔
بول ٹی وی کیخلاف جو کچھ ہوا وہ ہم صحافی برادری سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ، جتنے دن ایگزیکٹ سکینڈل اخبارات اور ٹی وی چینلز پر چلتا رہا، حکومت کیخلاف ایک خبر بھی ٹی وی یا اخبار میں دیکھنے کو نہیں ملی، ٹیکس چوری، فراڈ، جوئے کے اڈوں، قبضے کی زمینوں، مضرصحت اشیائے خوردنوش کی فروخت اور غیرمعیاری تعلیمی ادارے بنا کر کالا دھن کمانے والے تمام میڈیا مالکان کا صرف ایک ہی مسئلہ تھا کہ کسی طرح بول ٹی وی کو آن ایئر ہونے سے روکا جائے۔
بول ٹی وی کیخلاف میڈیا مالکان کی سازشی مہم میں سب سے زیادہ شرمناک کردار پاکستانی صحافتی کی تمام تنظیموں نے ادا کیا ہے، ہزار لعنت ہو تمام صحافی لیڈروں پر جو بول ٹی وی کے دو ہزار ورکروں کو فاقہ کشی کی طرف دھکیلنے کی مہم پر تاحال خواجہ سراؤں کا کردار ادا کر رہے ہیں، کاش تما م صحافتی تنظیمیں بول ٹی وی کے ساتھ فعال طریقے سے کھڑی ہوتیں اور حکومت کی ہر تقریب کا بائیکاٹ کرتیں، پریس گیلریز اسمبلی کی کارروائیوں کا بائیکاٹ کرتیں، ہر صحافی کو موٹی ویٹ کرتیں کہ وہ بول ٹی وی کیخلاف مہم کے دوران اپنے بازو پر سیاہ پٹی باندھ کر ڈیوٹی پر جاتا ، کاش صحافتی تنظیمیں میڈیا مالکان کے ٹاؤٹوں اور دلالوں کا کردار ادا کرنے کی بجائے کسی اہم شاہراہ پر دھرنا دیتیں۔۔ کاش صحافتی تنظیموں کو یہ عقل آ جائے کہ اگر بول ٹی وی نہ آیا تو پہلے سے فرعون بن کر صحافیوں کا خون چوسنے والے میڈیا مالکان کی کوشش ہو گی کہ اب صحافی مریں بھی انہی کی اداروں میں اور ان کی نعشیں انکے ورثاء کے حوالے کرنے کی بجائے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو تجربات کیلئے فروخت کر کے مزید پیسے کما لئے جائیں اور مجھے خوف ہے کہ اب شاید ایسا ہی ہوگا۔
میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی ایگزیکٹو کونسل کا ممبر ہوں اور میرا ضمیر ہر وقت مجھ پر لعنتیں ڈالتا ہے، مجھے شرم دلاتا ہے کہ ایسی تنظیموں کا عہدیدار بننے کا کیا فائدہ کہ جب تم اپنے ہی حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتے تو کسی دوسرے کے حق کیلئے کیاخاک کروگے۔
کراچی کے صحافیوں کو سلام پیش کرتا ہوں کہ وہ بول ٹی وی کے دفتر گئے ان سے اظہار یکجہتی کیا مگر یہ کم ہے، صرف بول ٹی وی کے دفتر جا کر اظہار یکجہتی کرنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا پڑے گا ۔۔ ورنہ۔۔ پوری صحافی برادری آئندہ دس برس اینٹیں کھانے اور فاکہ کشی کاٹنے کیلئے تیار رہے۔۔
میاں داؤد
سٹاف رپورٹر (سٹی فورٹی ٹو ٹی وی لاہور)
0322-4653677
Rana Azeem is a president of his PFUJ group faction and working in Dunya TV. All presidents and body members of UJs, Press Clubs are enjoying in different channels who are part of a anti BOL campaign. What do think about these so called leaders?
Tajammul Girmani
Columnist Daily Al Shar-Sharq
Rana Azeem is a president of his PFUJ group faction and working in Dunya TV. All presidents and body members of UJs, Press Clubs are enjoying in different channels who are part of a anti BOL campaign. What do think about these so called leaders?
Tajammul Girmani
Columnist Daily Al Shar-Sharq
مياڼ داود
آپکي تحرير پړهنے کو ملي يقين جانئيے يهي ايک صحافي کي دل کي سچي آواز هے ،سمجه سے بالاتر هے ايک بات که آزادي صحافت کا جو پرچم اتها کر چلا چلا کر وه کونسے حقوق تهے جو پهلے هميڼ نهيڼ مل رهے تهے وه يهي حقوق تهے جو بول ټي وي اب اپنے ورکرز کو دينے جا رهاتها ليکن سرماريه دار ميډيا مالکان کو يه بات هضم نهيڼ هوئي اور باقاعده پلان کرکے کے يه سب کچځ کيا ګيا ،کيا ملک ميڼ اسوقت دوده کي نهرين بهه رهي هېن کيا آسمان سے من و سلوي اترنا شروع هوګيا هے نهيڼ تو پهر کيا اس ملک کو درپيش مسائل ختم هوګئے هيڼ مرچ مصالحے لګا لګا کر ايګزيکټ کي خبريڼ چلائي جارهي هيڼ صرف اور صرف اپنے مالي مفاد کے ليے ،ليکن سوچنے کي بات هے که هاتهيوڼ کي اس لړائي ميڼ نقصاان صرف ميرے جيسے اور آپ جيسوڼ کا هورها هے خدارا جسطرح جيو سټي فورټي ټو اور اے آر وائي کي بندش کيخلاف احتجاج کيا ګيا تها اب بهي ايک هونے کي ضرورت هے کيونکه اب نهيڼ تو کب
زمل خان
خيبر نيوز
لاهور
زبردست میاں صاحب! بہت ہی عمدہ طریقے سے آپ نے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیا ہے۔ کچھ لوگ آپ کو یہ طعنہ ضرور دیں گے کہ آپ نے غیرپارلیمانی زبان استعمال کی ہے یا غلط الفاظ برتے ہیں لیکن میں ایسا ہرگز نہیں سمجھتا۔ اور ویسے بھی یہ بالکل سیدھی سی بات ہے کہ
گفتار کے اسلوب پہ قابو نہیں رہتا
جب روح کے اندر متلاطم ہوں خیالات
پاکستان میں صحافتی تنظیمیں صحافیوں کے حقوق کے نام پر مال بنانے کے ادارے ہیں اور یہی ہوتا چلا آرہا ہے ایک عرصے سے کہ صحافیوں کا نام لے کر کوئی نہ کوئی مسئلہ اچھالو اور پھر پیسے لے کر چلتے بنو۔ خود کو صحافیوں کے لیڈر کہنے والوں میں اتنی شرم اور غیرت بھی نہیں ہے کہ وہ بھرپور اور مؤثر طریقے سے ان کارکن صحافیوں کے حق میں آواز ہی بلند کرلیں جنہیں ان کے ادارے کئی کئی مہینے تک ان کی محنت کا معاوضہ ادا نہیں کرتے۔
کون جانتا ہے کہ کتنے کارکن صحافیوں کے بیوی بچے یا ماں باپ اور بہن بھائی ان خبیث مالکان اور بڑے عہدوں پر بیٹھے حرامخوروں کی وجہ سے کتنے کتنے دن تک ایک وقت کی روٹی کو بھی ترستے رہے؟ کون بتا سکتا ہے کہ کتنے ایسے کارکن صحافی ہیں جن کے گھروں میں بیمار پڑے ان کے عزیزوں کو محض اس لیے دوا نصیب نہیں ہوسکی کیونکہ ان کے اداروں کے بدمعاش مالکان محنتانہ ادا نہیں کررہے تھے؟ کس کے علم ہے کہ ان صحافیوں کی تعداد کتنی ہے جو ہر روز سسک سسک کر اس آس پر دفتر جاتے رہے کہ شاید آج انہیں کئی مہینے کی رکی ہوئی تنخواہ میں سے کچھ پیسے مل جائیں اور وہ ان کی مدد سے اپنے پیاروں کے چہروں پر لگے رنج و الم کے داغ دھو سکیں؟ کسے پتہ ہے کہ ایسے کتنے صحافی ہیں جنہیں تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے ان کے وابستگان عید کے روز بھی پڑوسیوں کے رحم و کرم پر رہے؟
آپ نے درست کہا کہ یہ ‘بول’ یا کسی ایک خبری ادارے کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری صحافی براردی اور قوم کا مسئلہ ہے۔ میڈیا مالکان اور ان کے بغل بچوں کی اس بدمعاشی کو روکنے کے لیے ہم کارکن صحافیوں کو مل کر آواز اٹھانی ہوگی اور ان لوگوں کو یہ بتانا ہوگا کہ ہم اپنے حق کے لیے لڑنا جانتے ہیں۔
عاطف بٹ
اصل میں صحافی ہی ایک دوسرے کے مخالف ہیں اگر صحافی اتحاد کر لیں تو مسلم لیگ ن کی حکومت غیر قانونی حرکتیں ہی نہ کر سکے ایگزیکٹ کی سزا بول کو نہیں ملنا چاہیے تھی صحافیوں نے روز خبریں لگا کر ظلم کرایا ہے جس کی شدید مزمت کرتے ہیں
No option except to agree with Mian daud. A very sad aspect of media industry. The Bol episode has made Working journalists more vulnerable unfortunately.
Amjad warraich
Untill now BOL did nothing wrong except one thing that its so called heads like AA and KK has left 2500 workers in the middle of nowhere. Only workers like me those who are participating in this debate are sanding with those workers and raising their voice to protect BOL from the Government FIA and TV channels who wanted to kill this channel before its launching.
Dear workers we are standing with you at any cost/
zafar Mahmood sheikh
RIUJ Dastoor
PFUJ dastoor
میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ اصول اور نظریات زندہ ہیں، بول ٹی وی کیخلاف میڈیا مالکان اور شیطانوں کے گٹھ جوڑ کے باوجود میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ اصول اور نظریات زندہ ہیں۔۔ اصول کی بات یہ ہے کہ اگر ایک محلے میں جسم فروشی کرنے والی ایک خاتون کو دھندہ کرنے کی اجازت ہے تو پھر اسی محلے میں پہلی خاتون سے زیادہ خوبصورت خاتون کو بھی اپنی مرضی سے دھندہ کرنے کی اجازت ہونی چاہیے ۔۔۔ بول ٹی وی کے لائسنس میں غیرشفافیت تھی، ایگزیکٹ دو نمبر کمپنی تھی، شعیب شیخ چور ہے، یہ سب بالکل غیراہم باتیں ہیں۔ پاکستان کا ہر میڈیا مالک اتنا ہی مجرم ہے جتنا شعیب شیخ ہے، ہر میڈیا مالک نے ٹی وی چینل اور اخبار اس لئے کھولا ہوا ہے کہ اپنے کالے دھن کو تحفظ دیا جا سکے اورپنے دیگر کاروباروں کا ٹیکس چوری کیا جا سکے؟؟ کئی میڈیا مالکوں کی فیکٹروں اور انڈسٹریوں کو چوری کی گیس اور بجلی دی جا رہی ہے، مطلب کہ اس ملک میں ہر کوئی ناجائز دھندہ کر رہا ہے تو بھئی شعیب شیخ کو بھی کرنے دو۔
۔
بطور صحافی سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پاکستان کے چند صحافی بے غیرتی کی آخری حدیں پھلانگ کر اور تمام حقائق معلوم ہونے کے باوجود بول ٹی وی کیخلاف میڈیا ہاﺅسز کے سیٹھوں کی مہم کی حمایت کر رہے ہیں۔ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ بول ٹی وی ہو یا کوئی اور مگر میڈیا میں زیادہ سے زیادہ ادارے آنے چاہیں، اسی میں سب کی بھلائی ہے ۔۔
میاں داﺅد
ممبر ایگزیکٹو کونسل پی ایف یو جے
سٹاف رپورٹر سٹی فورٹی ٹو
0322-4653677
Issue of BOL tv channel is just only a war between media houses no
matter who won this war but the most horrific fact is that affectees
would be the journalists only.