اسلامی ملک سعودی عرب کی تاریخ میں پہلا فیشن ویک رواں ماہ 11 اپریل کو ہوا تھا، جو اپنی مقررہ تاریخ سے 2 ہفتے بعد منعقد ہوا۔
عرب فیشن کونسل (اے ایف سی) کے زیر اہتمام ہونے والے اس فیشن ویک میں صرف خواتین کو شرکت کرنے کی اجازت ہی تھی۔
اس فیشن ویک میں جہاں امریکا، روس اور برازیل سمیت دیگر ممالک کے فیشن ہاؤسز کی ملبوسات نمائش کے لیے پیش کی گئی، وہیں مقامی فیشن ڈیزائنرز کی ملبوسات کو بھی پیش کیا گیا۔
اگرچہ اس فیشن ویک کو منعقد کرنے کی اجازت سعودی عرب کی حکومت نے ہی دی تھی، تاہم اس کے انعقاد میں وہاں کی ایک نوجوان فیشن ایبل شہزادی کا اہم کردار رہا۔
فیشن ویک کو مارچ کے بجائے اپریل میں منعقد کیا گیا—فائل فوٹو: اے ایف پی
سعودی عرب میں پہلے فیشن ویک کے انعقاد کا سہرا جہاں سعودی حکومت اور عرب فیشن کونسل کو جاتا ہے، وہیں سعودی عرب کی 30 سالہ شہزادی پرنس نورا بنت فیصل السعود کو بھی جاتا ہے۔
’اے ایف پی‘ سے خصوصی بات کرتے ہوئے پرنس نورا بنت فیصل السعود کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے لوگوں کا اپنی ثقافت سے بہت لگاؤ ہے اور ایک خاتون ہونے کے ناتے وہ اس بات کو بہت اچھی طرح سمجھ سکتی ہیں کہ یہاں ثقافت و مذہب کی کتنی اہمیت ہے۔
شہزادی نورا بنت فیصل کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی خواتین کی جانب عبایہ پہننے کو اگرچہ دوسرے لوگ قدامت پسندی سے تشبیح دیتے ہیں، مگر درحقیقت یہ یہاں کی ثقافت کا حصہ ہے۔
نورا بنت فیصل نے فیشن ویک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں اس تاریخی قدم کا حصہ بننے پر بہت خوشی ہوئی، انہیں اچھا لگا کہ لوگ فیشن ویک میں ان کی تصاویر کھینچتے نظر آئے۔
شہزادی بنت فیصل کا کہنا تھا کہ فیشن ویک میں جس طرح صرف خواتین کو آنے کی اجازت تھی، اسی طرح وہاں تصاویر کھینچنے کی اجازت بھی صرف فیشن کونسل کو تھی، تاہم تمام تصاویر سعودی حکومت کے عہدیداروں کی اجازت کے بعد میڈیا کو جاری کی گئیں۔